Ahemad Bokhari (احمد بخاری)

احمد بخاری

ہیمرشولڈ (سیکرٹری جنرل اقوام متحدہ)

    احمد بخاری سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے کوئی زیادہ مدت نہیں گزری تھی۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رئیس تھے اور اپنی حاضر جوابی او رشگفتہ بیانی کی بدولت عظیم شہرت کے مالک تھے۔ اس کے علاوہ وہ اپنے ملک کے بدرجہ
غایت مؤثر اور باوقار ترجمان ہونے کے اعتبار سے بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہماری پہلی گفتگو نے ان جذبات واحساسات میں کسی قدر اضافہ ضرور کیا۔ لیکن یہ اضافہ ان کی اس خیالی تصویر سے چنداں مختلف نہ تھا جس کے ليے وہ باہر کی دنیا میں معروف تھے۔ مجھے یاد ہے کہ کس طرح اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے عالمی مسائل سے زیادہ انگریزی زبان کے ماورائی شعراء کے بارے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا تھا۔
    کم وبیش ایک سال کے بعد جب مجھے اس ادارے کے ليے عالم اسلام کے ایک اعلیٰ نمائندے کی جستجو ہوئی تو قدرتی طور پر میرا ذہن بخاری کی طرف متوجہ ہوا اور مجھے یہ معلوم کرکے مزید مسرت ہوئی کہ وہ ہمارے عملے میں شرکت کے ليے رضامند ہیں۔ یوں پہلے پہل ان کی خود سپردگی کسی قدر اچنبے کی بات تھی۔
   جنوری ۱۹۵۵ء میں وہ میرے ہمراہ پیکنگ گئے جہاں مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہوابازوں کی ایک جماعت کو رہا کرانے کے ليے بات چیت کرنی تھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ بڑے ہوشمند اور زیرک مشیر تھے لیکن اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری کے ساتھ جس بات پر انہیں ز یادہ تسکین حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ انہیں مشرقی ایشیا کی تہذیب سے رابطہ پیدا کرنے کا اولین موقع ہاتھ آیا تھا۔ یہ تہذیب مغربی ایشیا کی ثقافت کے متوازی اوصاف رکھتی تھی کہ جس رنگ میں وہ خورنگے ہوئے تھے۔
    اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے دوروں میں مجھے چند موقعوں پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ان ہی سفروں کے دوران، میں نے ان کی قدروقیمت کا اندازہ لگا کر یہ محسوس کیا کہ ان کی شخصیت پر ان کے عہد شباب کے تجروں اور خاص کر ان کی خاندانی روایات کی کتنی گہری چھاپ ہے۔ ان کے تمام رفقاء اور احباب جانتے ہیں کہ ان کی قدرتی گرم جوشی اور سادگی میں حیاداری کس قدر رچی بسی ہوئی تھی۔ ان مرکب اوصاف کے پیچھے ان کے عمیق شریفانہ اطوار کارفرما تھے۔ دراصل وہ ایک احساس فخر بھی رکھتے تھے۔ جس کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دو موقعوں پر کیا۔ ان میں سے ایک ان طنزیہ الفاظ سے بھی مترشح ہے کہ "میری پرورش وتربیت اونٹ کے کوہان پر ہوئی"۔
   میں نے اس جگہ روایات کے اس پس منظر پر خاص زور دیا ہے جس سے انہیں واقعی دل بستگی تھی۔ دوسرے اصحاب بلاشبہ ان کی علمی فضلیت اور مغربی اقدار پر ان کی بصیرت کا ذکر کریں گے۔ فی الواقعہ انہیں انگریزی زبان اور اپنے علاقے کی زبانوں پر زبردست قدرت حاصل تھی اور وہ غیرمعمولی طور پر مغربی ادب کے بھی بلند پایہ نقاد تھے۔
    قدرتی طور پر میرے ليے لازم ہے کہ احمد بخاری کے اوصاف وکمال کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے اسے چند لفظوں میں سمیٹ کر یہ بیان کروں کہ ان کی یہ خصوصیات ایک سیاسی سفیر کی حیثیت میں کس طرح ظاہر ہوتیں اور اپنا اثر ڈالتی تھیں۔ یہ کام میں جیقس برزون (Jacques Barzun) کی تازہ تصنیف دی ہاؤس آف انٹی لیکٹ کا ایک اقتباس پیش کرکے بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں "حکمت عملی (سفارت) کا تقاضہ ہے کہ دوسرے کے افکار و اذہان سے آگاہی حاصل ہو یہ انشاءپرداز کا بھی ایک امتیازی وصف ہے مگر اس سے دوسرے درجے پر کہ وہ دوسروں کے دلائل کا جواب کس ہوشمندی اور واضح استدلال کے ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک 'حاضر دماغ' سفیر اور ایک 'پریشان خیال' سفیر اصلاح میں ایک دوسرے کی ضد ہیں"۔
    احمد بخاری حقیقت میں ان اوصاف پر پورے اترنے والے سفیر تھے جو مندرجہ بالا اقتباس میں بیان کئے گئے ہیں۔

۲۵ جون ۱۹۵۹ء
 

* * *